قائ قبیلے کے سردار سلیمان شاہ

ارطغرل غازی کے والد سلیمان شاه یا گوندوز آلپ 1163میں ماہان میں پیدا

ہوئے ۔

profitablegatecpm.com/62/a3/3d/62a33d2bb7f6fe7f041b3b3563d1848a.js

ارطغرل غازی کے والد کے نام پر مؤرخین میں عرصہ دراز سے اختلاف رہا ہے۔ اس بارے میں دو مختلف نظریات سامنے آتے ہیں جو کہ دونوں اپنی جگہ مضبوط و معتبر ہیں۔

اُن مؤرخین کے نام جو ارطغرل کو ابن سلیمان شاہ روایت کرتے ہیں۔

 شکر الله، عاشق پاشازاده، نشری، تاریخ اور وچ بیگ القونوی، ادریس بتلیسی، حسن بن محمود بایاتی ، لطفی پاشا محی الدین جمالی، ابن کمال، جنابی اور خواجہ سعد الدین ۔

جبکہ وہ مؤرخین جو ارطغرل کے ابن گوندوز آلپ ہونے کے دلائل پیش کرتے ہیں، ان کے نام یہ ہیں:
رسالة التاريخ العثمانية، احمدی، کرامانی محمد شاشا، انوری، روحی، ولایت نامه، حضرت بکتاش ولی، جهان نما نشری، نشانچی محمد پاشا، یازیچی زادہ علی اور یونانی

مؤرخ ہلقو ندل۔

ان دونوں نظریات کو پیش کرنے والوں میں سے کسی کو بھی غلط نہیں کہا جاتا کیونکہ یہ سب معتبر مؤرخین ہیں اور انھوں نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ نظر انداز نہیں کیے جا سکتے ۔ اور خان غازی کے جاری کردہ سکوں میں اور خان بن عثمان بن ارطغرل بن گوندوز آلپ لکھا ہے جو کہ اس نظریہ کو مزید تقویت بخشتے ہیں۔

ارطغرل کے والد کے نام کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح ترکوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد ترکی ناموں کو برقرار رکھ کر اسامی ناموں کا بھی اس میں اضافہ کیا (جیسے عبدالکریم ساتوق بغرا خان، داؤد چغری بیگ، محمد آلپ ارسلان )، اسی طرح یہ کہنا بھی بعید از قیاس نہیں کہ ان کا نام سلیمان گوندوز آپ یا گوندوز سلیمان شاہ بھی ہو سکتا ہے۔

اور وچ بیگ نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ 620 ہجری میں چنگیز خان کے منگول لشکر کے ساتھ ختائی (چین) سے گزر کر بلخ، خراسان اور عراق پر یورش کی۔ اس زمانے میں ماہان شہر کا بادشاہ سلیمان شاہ تھا اور بلخ کا بادشاہ خوارزم شاہ تھا۔

سلیمان شاہ نے اپنے قبیلے کے ہمراہ ماہان سے سفر کیا۔

سلیمان شاہ نے دیگر ترک قبائل کے ہمراہ ماہان کو خیر باد کہ کر ایران کا رُخ کیا۔ ان کے وہاں سے نکلنے کے کچھ عرصے بعد چنگیز خان کی فوجیں وہاں آن پہنچیں اور بخارا، مرو اور ماہان میں وہ تباہ کاریاں پھیلائیں کہ شہروں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔

قائی قبیلہ سلیمان شاہ کی قیادت میں ایران پہنچا، وہاں کچھ عرصہ قیام کیا، اس کے بعد آگے کی طرف سفر کر کے اخلاط میں سکونت اختیار کی۔ اخلاط اس زمانے میں ایوبی سلطنت کا حصہ تھا اور ملک بلبن نامی حکمران کے زیر حاکمیت تھا ۔ ایوبی چونکہ ارتوقیہ امارت کے ہمسائے تھے، اس لیے وہ قائیوں کی بہادری اور اعلیٰ نسب سے بخوبی واقف تھے۔ ملک بلبن نے سلیمان شاہ اور اس کے قبیلے کو پناہ دی اور کافی معاونت کی۔

وہاں سلیمان شاہ کئی سال مقیم رہا اور کافی مقبولیت پائی۔ اس عرصے میں جلال الدین خوارزم شاہ کی اناطولیہ کی طرف آمد اور تاتاریوں کے اس کے تعاقب میں آنے کی خبر پھیلی۔ سلیمان شاہ نے اپنے قبیلے کے ساتھ ممکنہ خطرے کے پیش نظر اخلاط سے نکلنے کو ترجیح دی اور اناطولیہ کے اندورنی حصے ارض روم (Erzurum) اور ارزنجان [Erzinjan] کے درمیانی علاقوں میں سکونت اختیار کی۔

اس زمانے میں سلیمان شاہ نے عیسائی لٹیروں کے ایک گروہ کا بھی سد باب کیا جو کہ اکثر مسلمان علاقوں پر حملہ آور ہو کر غارت گری کرتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے شمال میں طرابزون کے بازنطینی حکمران کو شکست دے کر پسپا کیا۔ 1226ء میں ایک

صلیبی قلعہ بھی ان کے ہاتھوں سرنگوں ہوا۔

اس کے کچھ عرصے بعد سلیمان شاہ نے حلب کی طرف کوچ کرنے کا ارادہ کیا۔ بعض احتمالات کی رو سے سلیمان شاہ نے اپنے بیٹے ارطغرل کو حلب کے امیر کے پاس زمین کی درخواست کے لیے روانہ کیا، جہاں ارطغرل نے ایوبی حکمران امیر العزیز سے ملاقات کر کے اپنی عسکری اعانت کی یقین دہانی کروائی اور زمین کا پروانہ حاصل کیا۔

حلب کوچ کرنے کے اسباب کے متعلق مراۃ الکائنات میں لکھا ہے کہ اخلاط میں جگہ کم تھی، اس لیے حلب کا رخ کیا۔ روضۃ الابرار کا مصنف لکھتا ہے کہ اپنے وطن ترکستان جانے کے لیے حلب آئے۔ ابن کمال کے مطابق انھیں مشرقی اناطولیہ کی کوہستانی آب و ہوا راس نہ آئی۔ اس کے علاوہ ایران کے علاقہ میں منگول غلبہ کے باعث آبائی وطن کو پھر واپس نہ جا سکتے تھے، اس لیے نقل مکانی کی غرض سے حلب کی جانب آئے۔

منگولوں کا تسلط ۔

چونکہ ایران و خراسان کی راہ پر منگول سپاہ کا تسلط تھا اس لیے وہ راستہ خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ انھوں نے بغداد پہنچ کر وہاں سے جنوبی ایران کے راستے ماہان کی طرف جانے کو ترجیح دی۔ ایک اور روایت یہ ہے کہ سلیمان شاہ، ایوبی حکمران کی دعوت پر بیت المقدس میں عیسائی صلیبوں کے خلاف جہاد میں شامل ہونے کے لیے حلب جارہا تھا۔”

الغرض سلیمان شاہ نے اپنے قبیلے کے ساتھ حلب کا رُخ کیا۔ راستے میں قلعہ جعبر کے قریب دریائے فرات سے گزرنا پڑا۔ دریا میں سخت طغیانی تھی۔ قبیلے والوں نے اپنے سردار کو مشورہ دیا کہ کچھ وقت تک پانی کا دباؤ کم ہونے کا انتظار کیا جائے ، لیکن سلیمان شاہ نے سفر جاری رکھنے کی ہدایت دی اور اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا۔ فرات میں راہ کی صحیح واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ایک کھائی میں گھوڑے کے بدکنے سے سلیمان شاہ پانی میں گر گیا اور ڈوب کر انتقال کر گیا۔ اولیاء چلبی Evliya Celebi (1611-1682ء) کے علاوہ دیگر تمام مورخین نے سلیمان شاہ کی وفات کا سبب دریا کو پار کرتے ہوئے ڈوب جانا لکھا ہے۔

اولیاء چلبی کی کتاب۔

اولیاء چلبی اپنی کتاب ”سیاحت نامہ میں کہتے ہیں کہ عثمانیوں کے جد اعلیٰ ارطغرل بیگ کے والد سلیمان شاہ ہیں، جنھوں نے ماہان سے سلجوقی سرزمین کی طرف جاتے ہوئے راہ میں قلعہ جعبر کے کنارے پڑاؤ ڈالا۔ غسل کے ارادے سے دریائے فرات میں اترے اور پانی کی گہرائی کا اندازہ نہ کر سکے لہٰذا ڈوب کر وفات پاگئے۔ ان کی نعش کو قلعے کے جوار میں ایک بلند ٹیلے پر دفنایا گیا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *